نیا سال ادبی دنیا اور توقعات
سال نو پر ملک کے معروف اہل قلم کی آرا
شاعر، ادیب، ماہرِ امراضِ چشم پروفیسر ڈاکٹر ضیا ء المظہری کی نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں شائع ہونے والی تحریر
سالِ گذشتہ یعنی بیس سو بیس ( 20 20 )قومی اور بین الاقوامی سطح پر بہت سی بے یقینی، اضطراب اور انتشار کی کیفیت میں رخصت ہوا۔ایسی افراتفری اور نظریاتی تضادات گزشتہ کئی دہائیوں میں دیکھنے میں نہیں آئے۔
بقول حضرت اقبال رحمتہ اللہ علیہ
؎ اس دور میں مے اور ہے، جام اور ہے جم اور
ساقی نے بِنا کی روِشِ لُطف و ستم اور
کرونا کے مرض نے بنی نوعِ انسان کو جھنجوڑ کے رکھ دیا ہے۔ بیماری علاج اور اس سے بچاؤ سبھی کچھ کے بارے میں کثیر اختلاف رائے نے بہت سے لوگوں کو ذہنی خلجان میں مبتلا کر دیا ہے۔
؎ بڑھایابہت خوف کو ابلاغی دَجَل نے
بھڑکی ہوئی آتش کو ذرا اور ہوا دی
(ڈاکٹر ضیا ءالمظہری)
ایسے عالم میں اہم سماجی اور ذاتی امور کے بارے میں منظم طور پر غلط تاثرات کی ترویج ہو رہی ہے۔ دنیا ایک عالمی قریہ کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ مادہ پرست اور انسان دشمن قوتیں سماجی رابطوں، انٹرنیٹ اور کثیر الجہتی ذرائع ابلاغ کے ذریعے عوام الناس کے ادراک، شعور اور تخیل کو اپنی گرفت میں لینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ اور یوں معاشروں کی معاشی، معاشرتی اور سماجی روایات کو ایک مخصوص ڈھانچے میں ڈالنے کی منظم کوشش کی جا رہی ہے۔
؎ اغراض کی دنیا میں محشر سا بپا ہے
کس نے کسے کیسے کہاں یاد کیا ہے۔
(ضیاءالمظہری)
بیس سو اکیس کی آمد ہو چکی ہے۔ ادبی دنیا کا کردار افراد اور معاشرے کے رویوں اور روایات کے حوالے سے ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے۔ میری رائے میں شاعروں اور ادیبوں کے لیے لازم ہے کہ شعوری طور پر صحیح اور غلط کی تمیز کو اجاگر کرنے کی کوششوں کا حصہ بنیں۔
ابلاغی دجل کے لگائے ہوئے ذہنی زخموں کو مندمل کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دلوں میں امید کے عنصر پیدا کرنے میں ادبیات سے ہمیشہ کی طرح نیا سال بھی تو قع لگائے ہوئے آیا ہے۔ اس دھوکہ دہی اور افراتفری کے عالم میں محسن انسانیت امام الانبیاء محمد الرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بتایا ہوا نسخہ جدید دور کے مسلمان کے دل کو تقویت عطا کرنے کے ساتھ تمیز خوب و زشت کو بیدار کرنے کا یہ تیر بہدف حل ہے۔ روایات کے مطابق ہر جمعہ کو پوری سورہ کہف یا اس کی ابتدائی اور آخری آیات کی تلاوت دنیاوی دجل اور فتنہ دجال سے بچنے کے لئے انتہائی مفید ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ آنیوالے وقت میں ادبی دنیا اپنی ذمہ داریوں سے انحراف نہیں کرے گی اور اپنے معاشرتی اور سماجی کردار کو بھر پور انداز مین نباہنے میں کامیاب رہے گی۔ تحریر کا اختتام چشمِ بینا سے لئیے گئے ایک شعر پہ کرتا ہوں۔
؎مضطرب سے لوگ مظہرؔ بے سکوں سی زندگی
حق کی دعوت جب چلی تو جائے گا سب کچھ بدل