پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی لکھی ہوئی یہ نظم نوائے وقت کے سنڈے میگزین میں ۱۱ اگست ۲۰۱۹ کو شائع ہوئی۔
کلامِ شاعر بہ زبانِ شاعر
پروفیسر ڈاکٹر ضیاءالمظہری کی لکھی ہوئی یہ نظم درج ذیل ہے۔
داستانِ چمن
اے گلِ نازاں چمن کی داستاں ہم سے سنو
طاق میں ہیں بجلیاں بربادیاں ہم سے سنو
جھوٹے قصے عظمتوں کے کج کلاہوں سے سنو
کڑوی باتیں، تلخ یادیں، اور فغاں ہم سے سنو
دندناتے ہی رہے کردار کے قاتل یہاں
رسوا کئیے محسن، مربّی ، مہرباں ہم سے سنو
جابروں سے ، آمروں سے، غاصبوں سے ساز باز
مجرمانہ سر گزشتِ قاضیاں ہم سے سنو
مادر ملت کو بھی بخشا نہیں سالار نے
ماں کو دیں جو ذلّتیں رسوائیاں ہم سے سنو
نظریاتی مملکت کیسے ٹکڑوں میں بٹی
سیاسی مہروں سے ملے جب پاسباں ہم سے سنو
آمروں اور منصفوں نے مل کے کیں ایجاد جو
ضرورتوں کے نظرئیے خود غرضیاں ہم سے سنو
لا الہ کے نام پہ جو پایا خطہ ءِ زمیں
ہے کفر اور طاغوت اس پہ حکمراں ہم سے سنو
تحریر میں تقریر میں تعبیر میں تاویل میں
ہیں افترا اور کذب کی عیاریاں ہم سے سنو
سچ ہے جس کا نام وہ گم ہو گیا ہے جھوٹ میں
ابلاغ پر پابندیاں اور چھلنیاں ہم سے سنو
اِلزام اور دشنام سے آلودہ ہے ساری فضا
تہذیب میں تخریب کی سفاکیاں ہم سے سنو
نیک و بد کے درمیاں پہچان ممکن نہ رہی
صدق پہ بھی کذب کا ہو اب گماں ہم سے سنو
منہ چھپاتی ہے صداقت ، سینہ تانے ہے دروغ
منافقانہ سازشیں اور بازیاں ہم سے سنو
رہتے ہیں یاں محوِ ستم ماہرِ فن بازی گر
ہیں بولتی اور ناچتی کٹھ پتلیاں ہم سے سنو
بے نوا مجبور ہیں بے آسرا مظلوم ہیں
نافذ رہا قانون جنگل کا یہاں ہم سے سنو
ہیں بد چلن کاذب کمینے حکمراں ہم سے سنو
بن کے بیٹھے ہیں لٹیرے پاسباں ہم سے سنو
اے گلِ نازاں چمن کی داستاں ہم سے سنو
طاق میں ہیں بجلیاں بربادیاں ہم سے سنو
اس نظم کی چند تصاویر درج ذیل ہیں۔